میں نے پوچھا اس کا قصور کیا ہے آخر ایسا کونسا خطرناک اور برا کام کیا ہے تو بتایا کہ یہ انسانی عورتوں سے زنا کرتا ہے ہر وہ جن جو عورتوں کی عزتوں سے کھیلے اگر وہ پکڑا جائے تو اس کے ساتھ یہی حال ہوتا ہے اور اسے خوب سزا دی جاتی ہے۔ بعض تو اس سزا کے دوران مر جاتے ہیں اور جل کر راکھ ہوجاتے ہیں کیونکہ جنات اگر کوئی برائی کرتے ہیں تو اس کی سزا ہونی چاہیے کہ آخر اس سے جنات کی بہت زیادہ بدنامی ہوتی ہے ہم یہی منظر دیکھ رہے تھے اور باتیں کررہے تھے کہ اچانک صحابی جن بابا تشریف لائے ہم سب ان کے ادب میں کھڑے ہوگئے فرمانے لگے میں مدینہ میں نماز پڑھ کر آرہا ہوں۔ مجھے پتہ چلا کہ علامہ صاحب آج جنات کی دنیا میں سب سے بڑی اور خطرناک جیل دیکھنے آئے ہوئے ہیں۔ میں اس جیل کا نگران اعلیٰ ہوں۔ پھر انہوں نے اپنی ایک لاجواب بات بتائی۔ فرمانے لگے ایک دن میں حضرت انس رضی اللہ عنہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھا تھا تو انہوں نے مجھے یہ دعا بتائی کہ جو شخص سخت خطرے میں ہو ُپریشان ہو‘ دشمن کا خطرہ ہو یا جنات یا کسی حادثے کا یا لٹنے کا‘ یا اغوا‘ یا مال کے ختم ہونے کا جیسا بھی خطرہ ہو بس فوری طور پر امن مل جاتا ہے۔ وہ عا یہ ہے: بِسمِ اللّٰہِ عَلٰی دِینِی وَنَفسِی وَوَلَدِی وَاَھلِی وَمَالِی بس سارا دن کھلا پڑھے ہر حالت یعنی وضو بے وضو۔
اس گیارہ ربیع الاول کی رات میں کچھ معمولات کررہا تھا۔ اچانک ایک ایسا انوکھا واقعہ ہوا جو آج سے قبل نہیں ہوا تھا یہ بات اس لیے لکھ رہا ہوں کہ پیدائشی جنات سے دوستی‘ ہم کلامی ‘بالمشافہ ملاقات‘ ان کی شادی‘ غمی میں آنا جانا‘ یہ سب کچھ ہوتا ہے پھر وہاں کے مشاہدات اور حیرت انگیز واقعات ان کی دنیا کے رنگ وروپ دیکھنے کا موقع ملتا ہے جو ایک سے بڑھ کر ایک ہے لیکن آج جو واقعہ ہوا وہ اس طرح ہوا کہ میں ایک خاص درود شریف پڑھ رہا تھا کہ مجھے اونگھ آگئی میں نے اپنے آپ کو ایک بہت ہی بڑے سرسبز شاداب جنگل میں پایا۔ وہ جنگل کم جنت زیادہ‘ ہر طرف سبزہ شادابی رعنائی اور مقام حیرت ہی حیرت‘ ہر طرف پھول کلیاں۔ میں اسی حیرت میں گم اور مسلسل گھوم رہا ہوں کہ ایک نہایت حسین بزرگ ملے جو کہ مصلیٰ بچھا کر بڑی تسبیح پر کچھ پڑھ رہے تھے۔ میرے قدم ان کے قریب جاکر رک گئے اور میں خاموش انہیں دیکھ رہا تھا اور دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ کون ہیں؟ یہ کونسی جگہ ہے اور یہ کونسا ذکر کررہے ہیں؟ بہت دیر تک سوچتا رہا لیکن وہ درویش اپنے ذکر میں مشغول رہے۔ انہوں نے میری طرف کوئی توجہ نہیں کی بس خودبخود میری زبان پر سورہ اخلاص جاری ہوگئی اور میں نے سورہ اخلاص اونچی اونچی آواز میں پڑھنا شروع کردی‘ میرے پڑھنے سے اس جنگل کے ہر ذرہ نے یہی سورہ پڑھنی شروع کردی۔ ایک ایسا انداز اور کیفیت شروع ہوجاتی ہے کہ میں خود حیران کہ الٰہی یہ کیسا منظر ہے۔ میں خود ابھی تک وہ پرلطف منظر نہیں بھول سکا۔ بس میں بے ساختہ سورہ اخلاص پڑھ رہا ہوں اور بہت تیزی سے پڑھ رہا ہوں کچھ ہی دیر کے بعد میرے منہ سے شعلے نکلنا شروع ہوگئے میں ڈر گیا کہ یہ کیا ہوا لیکن پڑھنا نہیں چھوڑا وہ شعلے نہیں تھے بلکہ نور تھا اور ہر طرف نور ہی نور بس دل چاہتا تھا کہ میں پڑھتا جائوں ۔یکایک وہ درویش مصلّے سے اٹھے تو ان کے اٹھتے ہی وہ طلسم ٹوٹا۔
انہوں نے دعا شروع کی مختصر دعا کے بعد میں خودبخود خاموش ہوگیا وہ اٹھے مصافحہ کیا گلے ملے‘ میرے ماتھے کو چوما پیار کیا لیکن بات نہیں کی۔ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر چلنا شروع کردیا اب وہ اور میں ہم دونوں سورئہ اخلاص پڑھ رہے تھے اس کے پڑھنے سے محسوس ہوتا تھا ہمارا فاصلہ کم ہورہا ہے اور ہم بہت تیزی سے فاصلے منزل اور قدم طے کررہے ہیں لیکن شاداب جنگل طے نہیں ہورہا تھا ہر قدم نئی خوبصورتیاں‘ نیا حسن و جمال‘ نیا رنگ و روپ اور نئی دنیا ملتی تھی محسوس ایسے ہورہا تھا کہ وہ درویش مجھے وہاں کی سیر کرارہے ہیں بس ان کے ہاتھ میں میرا ہاتھ ہے اور ہم مسلسل سفر کررہے ہیں۔ سفر میں سورئہ اخلاص اور قدرت کے مناظر دیکھنے میں ایسا محو تھا کہ منزل کا احساس نہیں ہوا کہ میں کہاں ہوں‘ کتنا فاصلہ طے کرلیا اور جانا کہاں ہے۔ بس سفر جاری تھا‘ بہت دیر کے بعد ایک محل اور بہت ہی خوبصورت محلوں پر نظر پڑی ان کے حسن و جمال کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ہم دونوں اس کے اندر داخل ہوئے تو کیا دیکھتا ہوں کہ حاجی صاحب‘ صحابی بابا ‘عبدالسلام باورچی جن اور لاتعداد بڑے جنات مسند نشین ہیں‘ ہر طرف خوشبو رچی بسی ہے‘ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ ہمارا انتظار تھا اور بس ہم پہنچے تو محفل میں سورئہ اخلاص کی تلاوت شروع ہوگئی مختلف قرات میں سورئہ اخلاص پڑھی جارہی تھی‘ آواز ایسی دلکش اور پرسوز تھی کہ ہر شخص کے آنسو رواں تھے۔ پہلے تو میں نے محسوس نہ کیا لیکن پھر دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ وہی درویش ہیں جو مجھے ساتھ لائے تھے یہ ان کی آواز تھی حالانکہ میرے ساتھ بیٹھے تھے لیکن سورئہ اخلاص کی آواز میں ایسی دلکشی اور سوز تھا کہ خود اپنے وجود کی خبر نہیں تھی میں نے قریب ہی بیٹھے ایک جن سے پوچھا یہ درویش کون ہیں؟ وہ حیران ہوکر بولے کہ آپ نہیں جانتے؟ یہ حضرت خضر علیہ السلام ہیں۔ سورئہ اخلاص کے عاشق ہیں اور ہر اس شخص سے عشق ومحبت کرتے ہیں جو سورئہ اخلاص کا ورد رکھتا ہو کیونکہ حضرت خضرعلیہ السلام خود سارا دن سورئہ اخلاص ہی پڑھتے ہیں اور یہ خود فرماتے ہیں وہ شخص مقام ولایت تک نہیں پہنچ سکتا جو سورئہ اخلاص نہ پڑھتا ہو۔
بس یہ مختصر سی بات کرکے ہم خاموش ہوگئے اور سورئہ اخلاص کی قرات جاری رکھی اس کی تلاوت ختم ہوئی۔ ہر آنکھ اشک بار تھی اور ہر طرف نور ہی نور تھا۔ پھر کھانے کی دعوت شروع ہوئی اوردستر خوان وسیع تھا۔ (جاری ہے)
آئندہ قسط میں علامہ لاہوتی کے سورئہ اخلاص سے متعلق حیرت انگیز کمالات اور مشاہدات پڑھنا نہ بھولیں!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں